انصاف کا سلسلہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کیفرکردار تک پہنچانے تک جاری رہے گا، پاک فوج

ISPR

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ کسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بڑھ کر نہیں، 9 مئی سے جڑے منصوبہ سازوں کو سزاؤں تک انصاف نہیں ہوگا، انصاف کا سلسلہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کیفرکردار تک پہنچانے تک جاری رہے گا۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، 5 سال کے مقابلے میں اس سال سب سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے، افغان سرزمین سے فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

نیوز کانفرنس کے دوران پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے بارے میں اہم معلومات فراہم کیں۔

جنرل احمد شریف نے بتایا کہ پاکستان نے 59,000 سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر 169 سے زائد آپریشنز جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے کئی منصوبوں کو ناکام بنایا گیا ہے اور بھاری مقدار میں اسلحہ و گولا بارود بھی پکڑا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فتنہ الخوارج کے متعدد سرغنوں کو جنہم واصل کیا گیا اور 27 افغان دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔ خودکش بمباروں سے بارودی جیکٹس بھی برآمد کی گئی ہیں، جنہوں نے ذہن سازی کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات کئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ گزشتہ دو برس کےدوران افغان عبوری حکومت کے ساتھ مختلف فورمز پر بات چیت ہوئی ہے، افغان عبوری حکومت کو یاباور کرایاگیا کہ فتنہ الخوارج کی سہولت کاری نہ کی جائے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے بہترین کردار ادا کیا ہے، جبکہ افغانستان کی سرزمین فتنہ الخوارج کی پاکستان میں کارروائیوں میں ملوث ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف مختلف نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاک فوج اپنی عوام اور بارڈرز کی حفاظت کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جا رہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ چمن بارڈر پر جدید نظام متعارف کرائے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تربیت کا عمل جاری رہتا ہے، تاکہ سیکیورٹی فورسز ہر طرح کی چیلنجز کا موثر جواب دے سکیں۔

جنرل احمد شریف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے انخلا کا عمل جاری ہے، جس کے تحت موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 383 افسروں اور جوانوں نے وطن کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دی ہے، اور پاک فوج و قوم شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ حکومت پاکستان کی ہدایت پر اسمگلنگ اور بجلی چوری کے خلاف بھی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیم کے شعبے کے لیے 6500 پروگراموں کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے بہت سے منصوبوں کو مکمل کیا گیا ہے، جو علاقے میں ترقی کی راہ ہموار کریں گے۔

جنرل احمد شریف نے کہا کہ بلوچستان میں بھی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور تعلیم کے شعبے میں اہم کردار ادا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ کچھی کنال کا منصوبہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے، جو مقامی آبادی کی زراعت اور پانی کی فراہمی میں بہتری لائے گا۔

پی ٹی آئی کے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات

پی ٹی آئی کے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی یہ بات کرچکا ہوں، دوبارہ دہرا دیتا ہوں کہ پاکستان کی فوج کا ہر حکومت کے ساتھ ایک سرکاری اور پیش ورانہ تعلق ہوتاہے، حکومتیں سیاسی جماعتیں بناتی ہیں، اس سرکاری، پیشہ روانہ تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہے، یہ پاکستان کی فوج جو کسی مخصوص جماعت یا مکتبہ فکر کی فوج نہیں ہے، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما قابل احترام ہیں، کوئی فرد واحد، اس کی سیاست، اس کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بالا تر نہیں ہے، اس وقت وفاق اور صوبوں میں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں موجود ہیں، سیاسی مذاکرات کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے، یہ خوش آئند ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات کو حل کریں، نہ کہ انتشاری سیاست کریں۔

انہوں نے بتایا کہ 2021 میں کس کی ضد تھی کہ بات چیت کرکے ان کو سیٹیل کیا جائے، بات چیت کی اس ضد کی قیمت خیبرپختونخوا ادا کر رہا ہے، بجائے اس پر بیانیہ بنانے کے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، ایسے ہر مسئلہ کا حل بات چیت سے ہوتا تو دنیا میں جنگ اور غزاوت نہ ہوتے، ایسے رویے کی قیمت پوری قوم دیتی ہے، بجائے اس پر بیانہ بنائیں، سیاسیت کریں، گڈ گورننس کیوں نہ کریں، انہوں نے کیونکہ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دینی اس لیے اس پر سیاسیت کرنی ہے۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فوج کا احتساب کا نظام بہت جامع ہے، 9 مئی کے پہلے ایک مربوط منصوبہ بندی اور سازش تھی، جو لوگ بھی اس منصوبہ بندی اور سازش میں ملوث تھے، انہیں آئین و قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر فورجی افسر کےلیے ریاست اور افواج مقدم ہیں، کوئی افسر اگر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو اسے اس کا جواب دینا پڑے گا، اس کیس کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ حساس اور زیر سماعت کیس ہے، اس میں حساس معاملات جڑے ہیں، اس لیے اس پر غیر ضروری تبصروں اور تجزیوں سے گریز کیا جائے۔

26 نومبر کو ڈی چوک میں ہونے والے احتجاج کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس دن پیش آئے واقعات کے پیچھے سیاسی دہشت گردی کی خاص سوچ تھی، یہ منفی اور دہشت گردی کی سیاست کا سلسلہ 2014 میں پارلیمنٹ اور سرکاری املاک پر حملوں سے شروع ہوا، اس طرح کی سرگرمیوں سے عوام کی ترقی کے اقدامات میں رخنہ پڑتا ہے جس کی قیمت ہم سب چکاتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اس واقعے کے بارے میں یکم دسمبر کو وزارت داخلہ نے اعلامیہ جاری کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس تمام صورتحال میں افواج مظاہرین کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی، نہ اس کو پرتشدد ہجوم کو قابو کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا، اس میں واضح کیا گیا کہ سیاست قیادت اور مظاہرین میں شامل مسلح افراد نے فائرنگ کی، ہم نے ان کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکھا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آتشی اسلحہ دیا ہی نہیں گیا تھا، جب سیاسی قیادت وہاں سے بھاگی تو پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت فیک مواد کو تیزی کے ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا، اس کا مقصد بے بنیاد الزامات لگائے جائیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس کے پیچھے سوشل میڈیا اور اس کو چلانے والے ہیں، اس انتشاری سیاست کا کنٹرول ملک میں نہیں، بیرون ملک موجود سوشل میڈیا کے پاس ہے، اس کے بعد انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں ایک دم متحرک ہوجاتی ہیں جنہیں دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی نظر نہیں آتی لیکن فیک ویڈیوز اور ان دیکھی لاشوں پر ان کے جذبات بے قابو ہوجائیں گے۔

ضلع کرم کی صورتحال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہاں کا معاملہ بہت پرانا، قبائلی اور زمینی تنازعات کا معاملہ ہے، اصل بد قسمتی یہ ہے کہ یہ غلط سیاسی ترجیحات کا کیس ہے، اس کو صوبائی حکومت اور مقامی سیاستدانوں نے حل کرنا ہے، بجائے اس کے کہ ملبہ اداروں پر ڈالا جائے، ان واقعات کے دوران یہ مذموم کوشش بھی کی گئی کہ تنازع کو مسلکی رنگ دیا جائے اور اس کو بڑھایا جائے۔

واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کی پریس کانفریس کا انعقاد ایسے وقت پر ہورہا ہے جب افغانستان میں طالبان جنگجوؤں پر حالیہ حملوں کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کالعدم تنظیمیں، بشمول تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مختلف شہروں میں ممکنہ دہشت گرد ی کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا تھا کہ پکتیکا میں پاکستانی فوج کے فضائی حملے میں سویلینز کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

About The Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے