برطانوی ہائی کمشنر کوسپریم کورٹ کا جواب،تنقید کو بلا جواز قرار دے دیا
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انتخابی نشان سے متعلق فیصلے پر برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کی تنقید کو بلاجواز قرار دے دیا گیا ۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے برطانوی ہائی کمیشن کو خط لکھا جس میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر تنقید کا جواب دیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا کہ برطانوی ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پرجوش تقریر کر کے جمہوریت کی اہمیت، انتخابات اور کھلے معاشرے کی اہمیت اجاگر کی ، برطانوی حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی دلچسپی خوش آئند ہے لیکن پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 90 دن کے اندرانتخابات کرانا ضروری تھا، جس میں تاخیر صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن میں اختلافات کے باعث ہوئی۔
خط کے مطابق سپریم کورٹ نے معاملہ صرف 12 دن میں حل کر کے 8 فروری 2024 کو عام انتخابات یقینی بنائے۔
خط میں لکھا گیا کہ پاکستانی عدلیہ نے سیاستدانوں کو صادق اور امین نہ ہونے کی بیناد پر الیکشن سے تاحیات باہر رکھنے کے فیصلے ختم کئے جبکہ سپریم کورٹ میں مقدمات کی کارروائی عوام کیلئے لائیو نشر کرنے کی اجازت دی گئی، انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی نشانات کے بارے میں فیصلہ بھی براہ راست نشر کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی سے متعلق لکھا گیا کہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے والی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کی اہل ہی نہیں تھی۔
برطانوی ہائی کمیشن کو ارسال کئے گئے خط میں 107 سال پہلے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کی برطانوی حمایت ، کشمیر کا تنازعہ پیدا کرنے اور ایرانی تیل پر قبضہ کرنے کیلئے 1953 میں مصدق حکومت کا تختہ الٹنے میں برطانوی کردار کا حوالہ بھی دیا گیا۔
خط میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے 2 نومبر 1917 کو اپنے شہری لارڈ روتھس چائلڈ کے نام خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ اس خط میں برطانوی حکومت نے اسرائیل کے قیام کا یکطرفہ طور پر فیصلہ کیا ، بالفور اعلامیہ وہ بنیاد بن گیا جس پر ایک نسلی ریاست قائم ہوئی، جو لوگ ہمیشہ وہاں رہتے تھے اس نسلی ریاست سے نکال دیئے گئے، ان پر وحشیانہ تشدد ہوا اور کئی مارے گئے،معذو ر ہوئے۔
برطانیہ کی جانب سے 1953 میں تیل پر قبضے کی خاطر ایرانی حکومت گرانے کا بھی حوالہ دیا گیا اور لکھا کہ محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا، ایرانی تیل پر قبضہ کرنا، سات دہائیوں سے زیادہ چھپنے کے بعد ظاہر نہیں ہونا چاہیے؟ کیا یہ مجرم اور مظلوم کے لیے بہتر نہیں ہوگا؟ کیا یہ اعتماد، ممکنہ طور پر دوستی اور امن کو جنم نہیں دے گا؟ ۔
خط میں برطانوی ہائی کمشنر کو مشورہ دیا گیا کہ آئیے ہم آباد کاروں کی نسلی برتری کے دہانے سے پیچھے ہٹیں ، چونکہ کنگ چارلس تھری کی حکومت کے نمائندے نے جمہوریت ، کھلے معاشروں اور تنقید کی پیشکش کی جسے قبول کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان یہی حق استعمال کررہی ہے ، امید ہے کہ قابل قبول ہوگا۔
خط میں مزید کہا گیا کہ آئیے ایماندار بنیں اور کھلے پن کے جذبے کے ساتھ ماضی کی غلطیاں تسلیم کریں، پاکستانی عدلیہ نے اپنی غلطیاں تسلیم کرلی ہیں اور ان کی درستگی بھی کرلی ہے ، برطانیہ بھی غلطیوں کا ازالہ کرے، ماضی کی پرتشدد غیرجمہوری غلطیوں پر قائم رہنا موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے ٹھیک نہیں، آیئے سچائی کو اپنائیں، ایماندار بنیں اور کھلے پن کے جذبے کے ساتھ ماضی کی غلطیاں تسلیم اور اصلاح کریں۔