وزیراعظم شہباز شریف نے اڑان پاکستان پروگرام کا افتتاح کردیا
وزیراعظم شہبازشریف نے اڑان پاکستان پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے اس موقع پر پاکستان کے لیے عظیم دن قرار دے دیا، انہوں نے کہا کہ ملک کو آگے لے جانے کے لیے ٹیکس کو کم کرنا ہوگا، رونے دھونے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کوئی فائدہ نہیں، سیاسی استحکام معاشی استحکام سے جڑا ہوا ہے، اسی خادم نے چارٹر آف اکانومی کی آفر کی لیکن میری آفر کو حقارت کے ساتھ ٹھکرایا گیا، آج بھی بیٹھ جائیں تو آدھے مسائل وہیں ختم ہوجائیں گے، تحمل، برداشت اورہم آہنگی کی انتہائی ضرورت ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے قومی اقصادی پلان اڑان پاکستان پروگرام کا افتتاح کردیا، افتتاحی تقریب میں اڑان پاکستان کے لوگو اور کتاب کی بھی رونمائی کی گئی۔
افتتاحی تقریب میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیرخزانہ محمدا ورنگزیب، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی اور دیگر بھی موجود تھے۔
اڑان پاکستان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج کا دن پاکستان کے لیے عظیم دن ہے، آج اڑان پاکستان پروگرام کا افتتاح کیا گیا، آخری 9 ماہ میں بڑے چیلنجز کا سامنا کیا، بے پناہ چیلنجز کے باوجود معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے آگے بڑھنا ہے، 2023 میں پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا، نوازشریف اور اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی سیاست کو قومی مفاد پرقربان کردیں گے، ہم نے فیصلہ کیا ریاست کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔
شہبازشریف نے کہا کہ 2023 میں آئی ایم ایف کے لیے بھرپور کوششیں کی، چیلنجز کے باوجود معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، ہم نے اس معاشی کامیابی کے لیے خون پسینہ بہایا۔
انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کروں گا، جب 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے تھے، پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا، اس سے بچنے کے لیے ہماری قیادت اور اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ سیاست نہیں، ریاست کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور تنائج میں پیدا حالات کا سامنا کریں گے۔
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام روکنے کے لیے خطوط لکھے گئے تھے کہ پروگرام نہ کیا جائے، اس سے بڑی عوام کے ساتھ کیا زیادتی ہوسکتی ہے لیکن مالک کو منظور تھا آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری ہوئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے 38 فیصد مہنگائی کا بوجھ برداشت کیا، کاروباری حضرات 22 فیصد شرح سود دیکھ کر خوفزدہ تھے، زر مبادلہ کے ذخائر محمود تھے، مجبوری میں ہمیں ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑا، اس کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھرپور تعاون کیا، ان کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میری دعا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگروام ہوگا، اس کی مثالیں موجود ہیں، پڑوسی ملک نے 90 کی دہائی کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا، قدرت نے اس ملک کو وسائل دیے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کیوں لینا پڑا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ریاستی ملکیتی اداروں نے 6 کھرب کا نقصان کیا، آئی ایم ایف پروگرام میں ہمیں 7 ارب ڈالرز قرض میں مل رہے ہیں تاکہ استحکام آئے اور پاکستان شرح نمو کی طرف جائے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر 6 کھرب کے نقصانات اس غریب قوم نے برداشت کیے جو دریا برد ہوگئے، 4 کھرب میں بننے والی بجلی 2 کھرب میں بکے تو 2 ارب کا خسارہ کس کے کھاتے میں ڈالیں، 70 سال میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی تو قرضے نہیں لیں گے تو کیا کریں گے، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم قائد اعظم کے فرمودات کے تحت چلتے تو آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا نہ ہوتا اور ترقی کے لیے درکار سوائل موجود ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہم کتنا پیچھے چلے گئے ہیں، اس کا کوئی شمار نہیں، اس پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں، لعن، طعن کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں گریبان میں جھانک کر، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہم فیصلہ کرلیں کہ ماضی میں نقصانات ہوئے، جو خامیاں یا کمزوردیاں ہوئینِ ان کو سامنے رکھ کر پوری قوم کام،کام اور کام، محنت، محنت اور محنت کا سفر اختیار کریں تو بلا خوف تردید میں آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا، ہمیں راست بدلنا ہوگا، بلکل نئی طرح استعمال کرنی ہوگی۔
شہباز شریف نے کہا کہ ماضی قریب میں ہم متکبرانہ اور نا پسندیدہ رویوں کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہوگئے، ایک دوست ملک سے ہم نے ایک ارب ڈالرز کا قرضہ مانگا، وہاں کے اکابرین نے مجھے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ آدھا ارب ڈالر پاکستان کو دے دیتے ہیں، شہباز شریف صاحب آپ کے ملک سے جواب آیا کہ یہ واپس رکھو، ہمیں نہیں چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بتائیے کہ ایک تو آپ مانگ رہے ہیں اور اوپر سے آپ اکڑ رہے ہیں کہ ہمیں نہیں چاہیے، یہ کتنا بڑا تضاد ہے، اس کے علاوہ ایک اور دوست کے خلاف جو باتیں کی گئیں، وہ میں اپنی زبان پر بھی نہیں لا سکتا، یہ تو ہمارے اندر یہ صلاحیت ہوتی کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، ایک طرف ہم نے کشکول اٹھایا ہوا ہے، دوسری طرف کہہ رہے کہ ہمیں نہیں لینا۔