ہمارے احتجاج کا ہدف کوئی ادارہ نہیں۔ جمہوریت،آئین کی بحالی اورعدلیہ کی آزادی ہے،بانی پی ٹی آئی
ہمارے احتجاج کا ہدف کوئی ادارہ نہیں ہے۔ ہمارا ہدف ملک میں جمہوریت اور آئین کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں وکلأ اور صحافیوں سے گفتگو
فوج کسی ایک شخص یا پارٹی کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ہے ۔ فوج ہمارا قومی اثاثہ ہے۔ ایک پارٹی اور ایک شخص کے دس سال کے اقتدار کے منصوبے کو تحفظ دینے کے لیے پوری فوج کو بدنام کروایا جا رہا ہے۔ اس طرح عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے لایا جا رہا ہے ۔ 20 مارچ 1971 کو میں ڈھاکہ میں موجود تھا، لوگ وہاں اپنے حقوق مانگ رہے تھے چار دن بعد ڈھاکہ میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ اپنے حقوق مانگنے والی عوام پر بندوقیں لے کر چڑھ دوڑیں تو وہی انجام ہوتا ہے جو مشرقی پاکستان کا ہوا۔
عمران خان نے مزید کہا بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں مسنگ پرسنز کی موجودگی کا عذر جنرل باجوہ یہ دیتے تھے کہ عدالتیں ان افراد کو رہا کر دیتی ہیں اسی لیے انہیں جبری طور پر گمشدہ کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعلی بلوچستان نے بھی ایک مرتبہ اس بات کی نشاندہی کی کہ اس طرح کے اقدامات سے فوج کے خلاف نفرت جنم لیتی ہے۔ اب جو جبر و فسطائیت تحریک انصاف کے سپورٹرز اور رہنماؤں کے خلاف بپا کی جارہی ہے، اس سے بھی پورے ادارے کے خلاف نفرت ہر روز بڑھ رہی ہے۔ ایجنسیوں نے تحریک انصاف کے رہنماؤں شہباز گل، اعظم سواتی، خواجہ شیراز اور انتظار پنجوتھہ کو اغواء کرکے جو سلوک ان کے ساتھ کیا ہے اس کو پورے پاکستان نے دیکھا ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے گفتگو می کہا کہ میرا اپنی وکلا برادری سے سوال ہے کہ آپ نے مشرف کے دور میں اس کے ظلم کے خلاف ملک بھر میں وکلا تحریک چلائی تھی۔ آج مشرف کے دور سے یہ دور زیادہ بد ترین ہے۔ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کو اغوا کر کے ان کے خاندان کے افراد کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ جس طرح ان کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ اور ظلم کیا جا رہا ہے اور ہراساں کیا جا رہا ہے ، جس طرح عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہو رہا ہے تو ایسے میں آپ کا کیا کردار ہے ؟ آپ سب کو باہر نکل کر اس ظلم کے خلاف احتجاجی تحریک چلانی چاہیے۔
میرا اپنی پارٹی کے تمام ارکان اسمبلی، ٹکٹ ہولڈرز و عہدیداران کو یہ خاص پیغام ہے کہ آپ سب نے اس احتجاجی تحریک میں بھرپور شرکت کرنی ہے اور جو اس تحریک میں شرکت نہیں کرے گا اس کو اگلے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا۔ آپ سب کو ان آئینی ترامیم اور ملک میں جاری ظلم اور فسطائیت کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا۔
عمران خان نے ٹرمپ سے متعلق گفتگو میں کہا کہ امید ہےصدر ٹرمپ کے آنے سے چیزیں غیر جانبداری کی طرف جائیں گی۔ میں اپنی رہائی کا مطالبہ کروں گا نہ کوئی ڈیل۔ پہلے بھی کسی آمر یا عالمی طاقت کے کندھوں پر سوار ہو کر نہیں آیا تھا۔ ۲۰۱۸ میں بھی عوام نے مجھے ووٹ دیا اور ۲۰۲۴ میں بھی بدترین بندشوں اور جیل میں ہونے کے باوجود عوام نے دو تہائی اکثریت دی۔ اب بھی پاکستان کے حالات کی بہتری کے لیے بیرونی طاقتوں پر انحصار کی بجائے قوم کو خود کوشش کرنا ہو گی۔
جنرل باجوہ نے جس طرح حسین حقانی کے ذریعے میرے خلاف لابی کروائی اور بائیڈن ایڈمنسٹریشن کے کان بھرے، اور جس طرح پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بائیڈن انتظامیہ خاموش تھی ، امید ہے کہ اب ویسا نہیں ہو گا۔ صدرٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔ صدر ٹرمپ نے بطور وزیراعظم میرے وائٹ ہاؤس کے دورے پر بہت عزت کی تھی۔ کورونا کے دوران انہوں نے بروقت ٹیسٹنگ مشین پاکستان بھجوائی تھی۔ میرے کہنے پر انہوں نے کشمیر کا ذکر کیا جو اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے نہیں کیا تھا”